تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ حکومتوں پر ان کے ابتدائی سو دنوں میں اتنی تنقید نہیں ہوئی جتنی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت پر اس کے ہنی مون پیریڈ میں ہی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ البتہ یہ تمام تر تنقید بے جا ہے اور اس بات کا عمران خان کے ناقدین کو بھی بخوبی اندازہ ہے کہ عمران خان کے پاس ایسی کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے جو ان تمام حالات کو ٹھیک کر دے اور چند ہی دنوں میں ملک کی تقدیر بدل دے لیکن اگر ان محرکات کا جائزہ لیا جائے جو اس تنقید کی وجہ بن رہے ہیں تو وہ صرف اور صرف عمران خان صاحب اور ان کے پارٹی رہنماوں کا جوشِ خطابت ہے۔
اور جب سے حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان کیا ہے اس کے بعد سے تو عمران خان صاحب کو خودکشی والا بیان بار بار یاد کرایا جا رہا ہے، اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سپورٹران یا تو اس معاملے پر چپ سادھے ہوئے ہیں یا پھر اسے جوشِ خطابت اور “سیاسی بیان” کہہ کر اپنی جان چھڑوا رہے ہیں۔ لیکن اس معاملے پر پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی شکوہ نہیں بنتا کیوں کہ یہی پارٹی تھی جس نے زرداری کو سڑکوں پر نہ گھسیٹنے پر میاں شہباز شریف کے متبادل ناموں کے لئے ایک مہم چلائی تھی۔ وہ بھی جوشِ خطابت تھا اور خان صاحب کے دعوے بھی۔ اور جتنا ملسم لیگ نواز کو اس معاملے پر پی ٹی آئی نے ٹف ٹائم دیا اب بدلہ لینے کی باری ان کی ہے۔
سو دنوں میں تبدیلی لانا تو بالکل ممکن نہیں ہے لیکن عمران خان نے اپنے ابتدائی چند دنوں میں اپنی سادگی مہم کے ضمن میں جو علامتی اقدامات اٹھائے وہ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، اور ان کے نتائج دیر پا ہونگے لیکن ان اقدامات کی بنیاد پر وہ چند دن ہی سیاست کر سکیں گے اور کچھ عرصے میں اگر عوام کو یہ سادگی دیگر لیڈران میں نظر نہ آئی تو ایک مرتبہ پھر عوام کی توپوں کا رخ خان صاحب کی جانب ہو گا۔
تو آئیے ذرا اب جائزہ لیتے ہیں کہ نیا پاکستان کب اور کیسے بن سکتا ہے؟ دراصل بحیثیت قوم ہم میں بہت سے مسائل ہیں اور نیا پاکستان بنانے کے لئے صرف ملک کو ہی نہیں اس ملک کے باسیوں کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ قوم چاہتی ہے عمران خان لوٹی ہوئی دولت واپس لائے مگر سیاستدانوں پر ہاتھ نہ ڈالے۔ ترقیاتی پروجیکٹ شروع کرے مگر امداد یا قرض نہ لے۔ قوم کاوقار دنیا میں بحال کرے مگر قوم کو تمیز نہ سکھائے۔ قانون کی بالادستی قائم کرے مگر عوام کو قانون توڑنے پر جرمانہ نہ کرے۔ ہر ڈپارٹمنٹ میں انصاف کو یقینی بنائے مگر ہمیں ہمارا کام ایمانداری سے کرنے تلقین نہ کرے۔ قبضہ گروپوں سے ہمیں نجات دلائے مگر ہماری دکانوں مکانوں کے ناجائز تھڑے نہ توڑے۔ یہ قوم چاہتی ہے عمران خان کوئی جادو کی چھڑی لائے اور ہمارے ملک کو ٹھیک کردے لیکن ہمیں ٹھیک نہ کرے۔
وزیرِ اعظم صاحب کو اس چیلنج کابھی سامنا ہے، انہیں نئے پاکستان کے ساتھ نئے پاکستانیوں پر بھی توجہ دینی ہو گی۔ ان کا پالا ایسی جذباتی قوم سے پڑا ہے جو سر آنکھوں پر بٹھانے اور نظروں سے گرانے میں دیر نہیں لگاتی۔ عمران خان کو ان سب چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ جذباتی فیصلوں اوراعلانات سے اجتناب کرنا ہو گا، فیصلے کرنے سے پہلے سو مرتبہ اور اس پر یوٹرن لینے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچنا ہوگا، اور اپنے آپ کو ایک مضبوط ایڈمنسٹریٹر کے طور پر سامنے لانا ہوگا۔ خان صاحب کو اب جوش سے نہیں ہوش سے فیصلے کرنے ہوں گے کیوں کہ اب مسلم لیگ نواز کی سیاست کا مستقبل بھی عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر تو خان صاحب کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو گئے اور اپنے کئے گئے وعدوں میں سے آدھے بھی پورے ہو گئے تو وہ بلاشبہ پاکستان کے اگلے رجب طیب ایردوان ہوں گے اور اگر کارکردگی نہ دکھا پائے تو مسلم لیگ نواز اور مریم نواز کی اگلی باری کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔